تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। چشم تصور میں وادی عشاق الشہداء سے گزر ہوا۔یوں گماں ہوا کہ بہشت کے کسی جزیرے پر قدم رکھا ہو۔جیسے جیسے شب کا سناٹا ہر سوں پھیلاتا جارہا تھا کہی سے کسی کی سسکیوں کی صدا بلند ہورہی تھی،کہی سے کوئی زیارت عاشورہ سرگوشیاں میں تلاوت کرنے میں مصروف تھا اور کوئی کسی گوشہ میں رب سے مناجات کر رہاتھا، گویا ہر شہید شب کے اندھیرے میں سیدہ زہراء سلام علیہا سے توسل کرنے میں مشغول تھا۔یہ عاشقان خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے کہ جب آدھی دنیا نرم بستر پر میٹھی نیند سورہی ہوتی ہے وہی کچھ بندگان خدا شب کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔کوئی شہید کسی گوشے میں شب کی تاریکی میں سیدہ زہراء سے اپنی شہادت کی سند پر مہر لگوارہا تھا، کوئی جناب سیدہ سے اپنے لیے گمنامی کی سند وصول کررہا تھا اور کوئی سید الشہداء علیہ سلام کی قربت کا خواہاں تھا۔عجیب بات ہے جہاں دنیا پرست لوگ مقام شہرت اور نیک نامی کے لیے کیا کیا جتن کرتے نہیں تھکتے وہی عاشقان خدا اپنے لیے گمنامی کی مہر ثبت کروارہے ہیں۔ابھی محو حیرت میں تھی کہ کسی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا ،یوں لگا جیسے شہید عباس عصیمی کی والدہ اپنے لخت جگر کہ قبر پہ موجود ہیں یہ وہ شہید ہیں جسکی والدہ جب پوچھا کرتی تھیں کہ ہر وقت اپنا ہاتھ سینے پر کیوں رکھتے ہو تو جوابا کہتے کہ امام حسین علیہ سلام کے خادم کا ہاتھ سینے پر ہی ہونا چاہیے یعنی ہر وقت حکم کی اطاعت کے لیے آمادہ باش حالت میں رہنا چاہیے۔ ابھی اس شہید کا سوچ کر احساس ندامت میں اضافہ ہوا ہی تھا کہ کہی سے شہید حجت اللہ رحیمی کی مناجات سنائی دیں:
خدایا! عاشق اپنے معشوق سے اتنا عشق کرتا ہے کہ وہ فوت ہوجاتا ہے۔میں بھی تجھ سے اتنا عشق کروں کہ تیرے راستے میں ٹکڑوں میں بٹنا چاہتا ہوں
ابھی ان پاک طینت جوانوں کی مناجات پر غور کر ہی رہی تھی کہ کہی سے سسکیوں کی صدا سنائی دی۔۔ایک عاشق خدا حالت سجدہ میں رب سے راز ونیاز کررہا تھا خدایا امام زمان علیہ سلام کے سامنے عزت رکھ لے! بس ایک ایسی رات دے دے جو حضرت حر علیہ سلام کو دی تھی فقط ایک رات
میں ابھی اپنوں کے دئیے ہوئے زخم، اذیتوں ، تہمتوں اور دکھ کا سوچ رہی تھی کہ کہی سے شہید مصطفی چمران کی مناجات کی آواز سنائی دی۔خدایا! جنہوں نے میرے ساتھ بدی کی انہوں نے مجھے جگایا۔جنہوں نے میری نکتہ چینی کی انہوں نے مجھے زندگی بسر کرنے کی راہ سیکھائی، جنہوں نے مجھے نظر انداز کیا اور مجھ سے بے توجہی کی انہوں نے مجھے صبر و برداشت سیکھایا۔جنہوں نے مجھ سے نیکی کی انہوں نے مجھے مہربانی اور وفا سکھا دی۔پس خدایا ان سب نے مجھے دنیا اور آخرت میں کمال اور بلندی پر پہنچایا خدایا!ان سب کو خیر و نیکی عطا کر۔ زندگی کو کبھی اس زاویے سے دیکھا ہی نہ تھا یعنی کوئی اذیت اور دکھ دے اور بدلے میں دعادی جائے ایک شہید کے حوالے سے ملتا ہے اگر کوئی شخص ان کی دل آزاری کرتا تو دو رکعت نماز ادا کرتے اور کہتے خدایا تیرے اس بندے کا دھیان نہ تھا تو اسے معاف فرما۔
ابھی سر جھکائے ان عاشقان خدا کی مناجات پر غور کررہی تھی کہ مسحورکن عطر کی خوشبو نے اپنے گرد گھیرلیا۔یہ شہید علی حیدری کی قبر تھی۔اس سے عجیب عطر کی خوشبو آتی تھی جب کوئی اس شہید سے عطر کانام پوچھتا تو وہ کبھی بھی صحیح سے جواب نہ دیتے۔بعد از شہادت اس شہید کے وصیت نامے پہ درج تھا۔
خدا کی قسم!میں نے کبھی بھی کسی عطر کا استعمال نہیں کیا۔میں جب بھی معطر ہونا چاہتا تھا تو تہہ دل سے کہتا تھا یاحسین علیہ سلام!
سوچا کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی شہید سے توسل کروں اور اپنی سعادت کی دعا کے لیے بھی کہوں۔کیسے ممکن ہے کہ قافلہ حسینی پاس سے گزر جائے اور میں تشنہ رہوں ابھی یہ سوچا ہی تھا اور شکوہ لب پہ آنے کو تھا مگر جیسے شہید نے دل کی بات پڑھ لی ہو۔۔آہستہ سے تبسم کیا گیا اور سر جھکا کر کہا کہ تمہیں کیا لگتا ہے ہم تمہاری شہادت کی دعا نہیں کرتے؟ ہم دعا کرتے ہیں اور تمہارے لیے شہادت لکھ دی جاتی ہے مگر تم لوگ گناہ کرتے ہو اور شہادت تمہارے نصیب سے مٹادی جاتی ہے۔
جوابا کہنے کو کچھ نہ تھا سوائے ندامت کے آنسوؤں اور سر جھکانے کے۔ابھی مزید ان پر کیف مناظر کا مشاہدہ کرنا چاہتی تھی مگر جیسے کسی نے دوبارہ اس گناہوں بھری وادی میں دھکیل دیا ہو اور سرہانے پڑا بسیجی رومال ہنوز آنسوؤں سے تر تھا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔